عریانی، زنا اور اجتماعی موت

NOVANEWS

سیّد ہارون حیدر گیلانی

کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور حال یہ ہے کہ فحاشی و عریانی جیسے عام فہم معاملے کو حل کرنے کیلئے حکومت جو اُچھل کود کر رہی ہے اُس پر اِس ملک کا چند فیصدی طبقہ تو بے حد خوش ہے لیکن اکثریت جس غم و غصہ میں مبتلا ہے اُس کا انداز کرنا اِس مرحلے پر نا ممکن ہے۔ میں انصار عباسی، طلعت حسین اور دیگر تمام اشخاص کو سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے اسلامی روایات کو مسخ کرنے کی اِس قبیح سازش کے خلاف علم بلند کیا۔ اسلام نے پردہ اور ستر کو بے حد واضح انداز میں بیان کیا ہے اور اُس کیلئے کسی طویل بحث و مباحثہ کی قطعاً ضرورت بھی نہیں ہے اور اُس وقت تک ضرورت نہیں جب تک اِس مملکت کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔

تاہم یہاں پر میں فحاشی کے معاشرتی کردار کے حوالے سے بحث کروں گا۔ فحاشی و عریانی کو انسانی حقوق اور آزادی کے نام پر فروغ دینے والے تمام افراد و اداروں کو کافی حد تک جانتا ہوں۔ اِن میں جہاں بہت سی باتیں مشترک ہیں اُن میں اہم ترین سے علم و فکر سے عاری ہونا۔ ہمارے کچھ دوست یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں یہ آزادی کے علمبرادار کسی مغربی ایجنڈے یا ثقافت کو پھیلانا چاہ رہے ہیں، تاہم حقائق تو یہ بتاتے ہیں کہ مغرب تو حجاب کے فروغ کیلئے کوشاں ہے اور اِس مقصد کیلئے سیاسی و سماجی ماحول و آگہی کے مباحث میں مشغول ہے۔ اگر پاکستان میں فحاشی و زنا کاری کے فروغ میں مگن اداروں کا مقصد مغربی اقدار و اطوار پھیلانے کا کاروبار ہوتا تو اُن کی کاوشیں بھی مغربی تحریکوں جیسی خبریں سناتیں۔ میں اِن کو بھارتی ثقافت کا علمبردار بھی نہیں کہوں گا اِس لئے کہ میں بے شمار بھارتی ہندو (عمومی تاثر یہ ہے کہ بھارت کے ہندو فحاشی و عریانی کے پرستار ہیں) خواتین و حضرات کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو کہ بھارت سے باہر بے پناہ فحاشی و عریانی سے نالاں ہو کر اپنی بیش بہا تنخواہوں کو چھوڑ چھاڑ کر محض اِس لئے واپس اپنے بچوں کو لے کر بھارت میں جا بسے ہیں کہ وہ افریقہ یا یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں اپنی اولاد کو کھو دیں گے۔

در حقیقت وہ تمام لوگ یا ادارے جو کسی بھی طور پر پاکستان کے معاشرے میں عریانی اور نسوانی جسموں کی عریاں نمائش کے فروغ کیلئے سر گرم ہیں وہ سب عورت کو بے وُقعت اور بکاؤ مال بنا دینا چاہتے ہیں۔ اِن کا انسانیت، ترقی ، تعمیر، جدّت وغیرہ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تو مادیت پرستی کے نمائندگان ہیں جن کا کاروبار انسانی زندگیوں سے کھیلنا ہے۔ پاکستان میں فحاشی کے فروغ کی راہ میں ہمیشہ سے حائل رکاوٹ یہاں کی اسلامی معاشرتی اقدار ہیں اور رہیں گی۔ جبکہ عریانی عام ہونے کا نتیجہ یورپ، امریکہ ، افریقہ، مشرقِ وسطیٰ وغیرہ میں ایک ہی نکلا ہے اور وہ ہے زنا کاری اور اندوہناک موت۔

پاکستان میں پرویز مشرف کی حکومت کی صورت میں زنا کاری کے فروغ کیلئے سر گرم افراد و اداروں کو سنہری موقع ہاتھ آگیا۔ پرویز مشرف اور اُس کے اردگرد کا ‘ سماجی حلقہ” اُس کی زنا کاری و عیاش طبیعت سے بخوبی واقف تھا۔ اِس طبقے نے جہاں اور بہت سارے مقاصد حاصل کر لئے وہاں زنا کاری کے خلاف قوانین کو ختم کرو کر زنا با الرضا کو قانونی حیثیت دے دی۔ جس کے نتیجے میں انٹر نیٹ پر پاکستانی ” روشن خیال” مرد و زن کھلم کھلا عریاں و فحش تصاویر شائع کر نے لگے بلکہ پاکستانی فحش و لچر جنسی فلمیں اور ویڈیوز بھی انٹر نیٹ پر بکثرت و بلا جھجھک شائع کی جانے لگیں۔ عوامی و تفریحی مقامات کھلم کھلا ڈیٹ پوائنٹس کی حیثیت اختیار کر گئے۔ نوجوان طبقے نے دھڑا دھڑ فلیٹوں کو کرائے پر لیا اور وہاں وصالِ یار کی ندیاں رواں ہوئیں۔ کوئی قانون کی گرفت میں نہیں آسکتا۔

مجھے اِس میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا اگر میں اِس ملک و قوم کا درد مند شہری و ٹیکس گذار نہ ہوتا۔ اسلام میرا دین ہے اور میں اسے دنیا کی بہترین نظریاتی اساس مانتا ہوں جو تمام معاملات و مسائل کا فطری و مدلل حل پیش کرتا ہے۔ فحاشی و زنا کاری کے خلاف اسلام جو کچھ بھی کہتا ہے اُسے ایک طرف رکھتے ہوئے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کیا فحاشی و زنا کاری معاشرے میں تعمیر و ترقی کی راہیں کھولتی ہیں یا معاشرے پر اِس کے اثرات منفی ہیں۔
میں یورپ و امریکہ کو تو کتابی حدود تک جانتا ہوں تاہم مشرق، وسطیٰ ، افریقہ و مشرق، بعید کے ممالک و اقوام کو گذشتہ دس سالوں سے اپنی کاروباری مصروفیات کی بنا پر بے حد قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا ہے۔ اِن سالوں میں میرا زیادہ تر وقت افریقی ممالک میں گھومتے گذرا۔ اُن ممالک میں جنسی آزادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے جس کے نتیجے میں ایڈز نامی موت اُس پورے بر اعظم کی پہچان ہے۔ افریقہ کے ممالک میں صرف امراء و وزراء ہی ایڈز سے بچاؤ کی ادویات خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ 2002 ء تک دو کروڑ افریقی ایڈز کی بدولت لقمۂ اجل بن چکے تھے جبکہ تین کروڑ مزید افراد اِس بیماری کا شکار تھے۔ جس کا مطلب ہے کہ2012 ء میں ایڈز کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے والوں کی تعداد پانچ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایک لمحے کیلئے خود کو روکیں اور سوچیں۔۔پانچ کروڑ کے قریب افریقی دس سالوں میں ایڈز کے ہاتھوں موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ یہ جنگ عظیم میں ہٹلر کی جرمن فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والے یہودیوں، خانہ بدوشوں اور ہم جنس پرستوں کی تعداد سے سات گُنا زیادہ ہیں۔ یہ پوری جنگ عظیم میں ہونے والی اموات کا تیسرا حصہ ہیں تاہم جب تک ایڈز کا شکار آخری افریقی موت سے ہمکنار ہو گا اُس وقت تک یہ تعداد جنگِ عظیم کی اموات کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ چکی ہو گی۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ایڈز نے 1920 اور 1930 کے دوران وسطی افریقہ کے جنگلی قبائل کے ہاں جنم لیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب افریقہ کے بیشتر علاقوں پر مغربی اقوام کا قبضہ تھا۔ انھی کی عیاشیوں اور زنا کاری کے ذریعے ایڈز کا عفریت دنیا بھر میں پھیلتا گیا۔ دنیا بھر میں ایڈز کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ مرد و عورت کے بے لگام و ناجائز جنسی تعلقات ہیں۔ مرد و عورتجنسی عمل کے دوران ایک دوسرے میں ایڈز کے جراثیم منتقل کر تے ہیں۔ مادر پدر آزاد معاشروں اور قوموں میں یہ جراثیم بسوں، گاڑیوں، ریلوں میں گاؤں گاؤں، شہر شہر سفر کرتا رہتا ہے۔ اس کے اہم ترین مراکز ناجائز جنسی عیاشی کی آماجگاہیں (قحبہ خانے)، بسوں اور ٹرکوں کے اڈوں سے لیکر ہر وہ بستر ہوتا ہے جہاں پر زنا کاری ہو رہی ہو۔
مشرقی و جنوبی افریقہ کے ممالک میں بسنے والے بالغ افراد کے پانچوں حصے سے زیادہ افراد میں ایڈز کا جرثومہ موجود ہے ۔ اِ س کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اِن ممالک کی آبادی کا پانچواں حصہ ایڈز کے ہاتھوں موت کا شکار ہو جائے گا۔ صورتِ حال اِس سے بھی کہیں زیادہ ہولناک ہے۔ ایڈز کا شکار یہ سبھی لوگ کم و بیش آئندہ دس سالوں میں ایک نہائت تکلیف دہ موت کا نوالہ بن جائیں گے لیکن مرنے سے پہلے وہ مزید لوگوں میں (زنا کاری کے ذریعے) ایڈز کو منتقل کر جائیں گے۔ مثال کے طور پر بوتسوانا نامی ملک جو کہ افریقہ میں ایڈز کا بد ترین شکار ہے، کے بالغان کا ایک تہائی ایڈز کا مریض ہے۔بوتسوانا کے صدر نے کچھ سال قبل روہانسے اندا زمیں کہا تھا کہ اگر اِ س آفت کا رُخ موڑا نہ گیا تو یہ ملک مکمل طور پر بے آباد ہو جائے گا۔ وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا۔

ایڈز نے افریقہ کی آبادی کو ہی ختم نہیں کیا، معیشت کا بھی قتلِ عام کیا ہے۔ دیگرمہلک بیماریوں کی نسبت ایڈز اپنے شکار کو ختم کرنے میں کہیں زیادہ وقت لیتی ہے لہذا اِس کے مریض کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی کہیں زیادہ اٹھتے ہیں اور طویل عرصے تک اٹھتے ہیں۔ موجودہ حکومتیں امراء و صحت مندوں پر ٹیکس عائد کرتی ہیں تاکہ مریضوں کا علاج کیا جا سکے لہذا ایڈز کا شکار قومی معیشت براہِ راست بنتی ہے۔ اور چونکہ ایڈز جنسی تعلقات سے پھیلتی ہے لہذا یہ نوجوان طبقے کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ کے ایک مالیاتی ادارے کی تحقیق کے مطابق 2010 ء میں اگر ایڈز متاثر نہ کرتی تو جنوبی افریقہ کی معیشت سترہ فیصد بہتر ہوتی۔ افریقہ میں پہلے ہی خوفناک حد تک ہنر مندوں کی کمی ہے اور ایڈز کی تباہ کاریوں سے اِس میں ہوشربا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایڈز کا شکار ہو کر مرنے والے ہنر مندوں کا خلا پُر کرنا بے حد مشکل اور کٹھن عمل ہے۔ زامبیا میں توانائی کا اس لئے بحران ہے کہ بے شمار انجینیر ایڈز کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ زمبابوے کے کسانوں کے لئے کھیتوں کو سینچنا مشکل ہے کیونکہ اُن کے پانی کے پائپوں میں لگے پیتل کے کارک مردوں کے تابوتوں میں دستے لگانے والوں نے چُرا لئے ہیں۔ پورے افریقہ میں ایڈز ملازمین کو کمزور تر کرتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے وہ مہنگے اور کمتر پیداواری صلاحیت کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔

در حقیقت اگر بہت پر امید ہو کر بھی سوچا جائے تو بھی کم از کم یہ نتیجہ اخذ کیا جائے گا کہ افریقہ ناقابلِ یقین آفت میں مبتلا ہے۔ سہارا کے ریگستان کے جنوب میں جہاں پر بھی میرا گذر ہوا ہے میں نے ایڈز نامی اِس تباہی کے اثرات و آثار ہی پائے ہیں۔ ہسپتالوں میں حقیقتاً تما تر بستروں پر صرف ایڈز زدہ مریض ہیں جبکہ دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کیلئے بستر و کمروں کا انتظام ممکن ہی نہیں رہا۔ ایڈز زدہ اِ مریضو ں کی حالت بے حد نا گفتہ ہے۔ کئی ایسے ہیں جن کی جلد چپک گئی ہے اور اُن کے بازو ہڈیوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ میں نے سینکڑوں افریقی اخبارات میں مرنے والوں کی خبروں کی چھان پھٹک کی ہے۔ سب کے سب تیس سے چالیس سال کے جوان چہروں سے مزین ہیں جن کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک ‘ طویل بیماری کے بعد وفات پا گیا(یا گئی)۔”میں نے اسکولوں کا معائنہ کیا ہے جہاں پر ایڈز کی وجہ سے اساتذہ کی شدید قلت ہے اور میں نے کاروباری اداروں کا مشاہدے کیا ہے جن کے مالکان نے یہ پابندیاں عائد کر رکھی ہیں کہ اُن کے ملازمین ماہانہ کتنے جنازوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔

وہ تمام خواتین و حضرات جن کا مطمع نظر پاکستان میں جنسی بے راہروی اور فحاشی کا فروغ ہے وہ اِس آفت کو پاکستان میں کیسے روکیں گے؟ ایسا ملک جہاں پر گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ کے استعمال کو ممکن نہیں بنایا جا سکا وہاں پر ” محفوظ جنسی تعلقات” کو کیسے ممکن بنائیں گے؟ جس ملک میں نزلہ زکام بُخار اور دیگر عام بیماریوں کے علاج کیلئے سہولیات میسر نہیں اور لوگ معمولی معمولی بیماریوں کی بھینٹ چڑ کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں وہاں ایڈز جیسی آفت سے نپٹنے کا کیا بندو بست ہو گا؟ڈینگی، ملیریا ، زرد بخار، پولیو پر قابو پایا نہیں جا رہا یہاں ایڈز کا مقابلہ کیسے کریں گے؟فحاشی اور زنا کاری کا فروغ تو سیدھا سیدھا اِس قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے مترادف ہے۔ اُس کیلئے اتنا تردد کیوں؟ سیاستدان اور مذہبی راہنما دن رات لگے ہوئے ہیں اِس کام میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اور افراد کیوں اِس دوڑ میں حصہ لینا چاہ رہے ہیں؟

اگر یہ لوگ یا ادارے پاکستان میں مغربی ثقافت کا فروغ چاہتے ہیں تو پہلے یہ تو سمجھیں کہ مغربی لوگ ہر تنبیہہ کو نہائت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ وہ سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ پہنتے ہیں۔ وہ اپنی حکومتوں سے توقع رکھتے ہیں کہ پینے کے پانی میں کو ایک بھی ایسا جراثیم یا کیمیکل نہ ہو جو اُن اقوام کے جسموں میں داخل ہو کر معمولی سا بھی نقصان پہنچاسکتا ہو۔ وہاں تو خشک میوہ جات بھی وہی خریدے جاتے ہیں جن پر تنبیہہ موجود ہو کہ اِس لفافے میں خشک میوہ جات ہیں۔ اگرچہ یہ سب کچھ حالیہ چند دہائیوں میں ممکن ہوا ہے۔ مغرب میں چند نسلیں پہلے تک تمام نو مولود بچوں کا سنِ بلوغت تک پہنچنا یقینی نہیں تھا۔ شیر خوار بچوں کی موت انھیں بھی تکلیف دیتی تھی مگر وہ اِس قدر خفا نہیں ہوتے تھے جتنا کہ موجودہ نسل ہوتی ہے۔ اُن کیلئے یہ سب کچھ بے حد عام تھا۔ تاہم تیسری دنیا ابھی مغرب سے کئی صدیاں پیچھے ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *